منشا یا اپنی تاریخ، اپنی تہذیب اور اپنی معاشرت میں سے بالکل سامنے کی کوئی علامت چنا ہے اور اس کی مدد سے کہانی کو الجھانے کی منفی مسرت میں مبتلا ہونے کے بجائے اسے کھولتا چلا جاتا ہے۔ اس پر مستزاد اُس کا بظاہر سیدھا سادہ مگر باطن نہایت تیکھا اسلوب اظہار ہے کہ جملے ذہن میں تیر کی طرح تراز و ہوتے چلے جاتے ہیں، الغرض محمد منشایاد اردو افسانے کی آبرو ہے۔ احمد ندیم قاسمی منشا یاد کے فن میں گور کی اور موپاساں دو عظیم افسانہ نگاروں کی روحیں شامل ہوگئی ہیں۔ اس کی کہانی کی ساخت گور کی جیسی ہے اور چونکا دینے والا اختتام موپاساں جیسا ہے۔ کہانی کے فنی ارتقاء میں منشایاد کی کہانیاں یقینا ایک بڑی چھلانگ ہیں۔ اشفاق احمد حیرت ہے کہ ایک ہی دور میں کوئی افسانہ نگار اس قدر متنوع قسم کی کہانیاں لکھے یا لکھ سکے۔ آئرستانی افسانہ نگار اور ناقد شان او فاؤلین نے ڈی ایچ لارنس کے افسانوں پر بحث کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اچھے افسانہ نگاروں کی ایک پہچان یہ ہے کہ ان کے کوئی سے دو اچھے افسانوں کو آپ ایک دوسرے کے مقابل رکھ کر دیکھیں تو پتا نہیں چلتا کہ ایک ہی لکھنے والے نے ان دونوں کو کیسے لکھ لیا۔ ہمارے دور ے دور میں اس تنقیدی تحیر کا اطلاق منشا یاد سے زیادہ کسی اور افسانہ نگار پر مشکل سے ہوگا مظفر علی سید منشایاد کی کہانیاں پڑھتے ہوئے ، اس کے کہانی کہنے کے انداز کو دیکھ کر مجھے لیونارڈو کے یہ الفاظ سطر سطر پر یاد آتے رہے اور یہی گواہی ہے کہ لفظوں میں چھپے ہوئے احساسات کیسے ایک اندھیرے کو روشن اندھیرا بنا سکتے ہیں اور کیسے ایک روشنی کو کلائی ہوئی روشنی اور یہی سبب ہے کہ ان کہانیوں نے رات پڑے کہانیاں کہنے سننے کی روایت کو اُلٹ کر رکھ دیا ہے یہ کہانیاں طلوع ہوتے سورج کی لالی کے وقت پڑھی جانے والی کہانیاں ہیں۔ امرتا پریتم
Showing 1-9 of 49 item(s)