Kuliyat Safdar Saleem Siyal - صفدر سلیم سیال
یہ کہنے میں شاید ہی کسی کو تامل ہو کہ حضرت کا غزل پر بڑا احسان ہے اور میرے نزدیک جس کا غزل پر احسان ہے۔ اس کا پوری اُردو شاعری اور اُردو زبان پر احسان ہے۔ حضرت نے غزل کی آبرو اس زمانہ میں رکھ لی جب غزل بہت بدنام اور ہر طرف سے نرغہ میں تھی ۔ انھوں نے اُردو غزل کی اہمیت اور عظمت ایک نا معلوم مدت تک منوالی ۔ رشید احمد صدیقی مصحفی ، جرات و مومن کے تغزل میں جو امکانات چھپے ہوئے تھے۔ وہ سب حسرت کی شاعری میں اس طرح پورے ہو گئے کہ اب اس رنگِ شاعری میں ترقی کی گنجائش ہی نہیں رہ گئی۔ حسرت نے ان تینوں رنگوں کو ملا کر ایک رنگ بنا دیا ہے۔ فراق گورکھ پوری حسرت موہانی کی شاعری بھاگتی دھوپ کی شاعری نہیں ۔ شباب کے عنفوان اور نصف النہار کی شاعری ہے جس میں پہلی نگاہیں اور اجنبیت کے مزے ہیں اور ننگے پاؤں کو ٹھے پہ آنے کا دور بھی ہے اور جوانی کے دوسرے تجربے بھی ہیں ۔ حسرت کے ہاں شباب و محبت کے یہ قصے حقیقی ہیں، خیالی نہیں ہیں۔ زندگی کے تجربے معلوم ہوتے ہیں۔ اس لیے ان میں صداقت کی تاثیر اور سچائی کی اکسیر بدرجۂ کمال موجود ہے۔ ڈاکٹر سید عبد الله حسرت موہانی کے عشق میں ایک معصوم سپردگی ، ایک دلکش والہانہ پن ۔ والہانہ پن ہے۔ ایک روحپر در کیفیت ہے جو ایک رومانی احساس رکھتی ہے مگر اس کی رومانیت میں تخیل کی تازہ کاری اور لالہ کاری نے ایک سدا بہار چمن کھلا دیا ہے۔ اس رومانیت میں بلاشبہ اکہراپن اور ہلکا پن بھی ہے۔ یہ تہ دار نہیں ہے اور نہ پیچیدہ ہے مگر جو کچھ ہے ، وہ تخیل ، تجربے، جذبے اور حسن بیان کا بڑا دلکش محلول ہے۔ پروفیسر آل احمد سرور حسرت کی عشقیہ شاعری کا مقابلہ اس دور کے کسی دوسرے شاعر کے کلام سے نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے جذباتی تجربے کی نوعیت بالکل انوکھی ہے۔ اس لیے ان کے کلام میں ایک خاص انفرادیت پائی جاتی ہے۔ انھوں نے اپنے عشق پاک باز کی بدولت اُردو غزل کو ایک نئے قسم کے محبوب سے روشناس کیا ہے جو اُن کی شاعری کی طرح منفرد ہے۔ ڈاکٹر یوسف حسین خان
منشا یا اپنی تاریخ، اپنی تہذیب اور اپنی معاشرت میں سے بالکل سامنے کی کوئی علامت چنا ہے اور اس کی مدد سے کہانی کو الجھانے کی منفی مسرت میں مبتلا ہونے کے بجائے اسے کھولتا چلا جاتا ہے۔ اس پر مستزاد اُس کا بظاہر سیدھا سادہ مگر باطن نہایت تیکھا اسلوب اظہار ہے کہ جملے ذہن میں تیر کی طرح تراز و ہوتے چلے جاتے ہیں، الغرض محمد منشایاد اردو افسانے کی آبرو ہے۔ احمد ندیم قاسمی منشا یاد کے فن میں گور کی اور موپاساں دو عظیم افسانہ نگاروں کی روحیں شامل ہوگئی ہیں۔ اس کی کہانی کی ساخت گور کی جیسی ہے اور چونکا دینے والا اختتام موپاساں جیسا ہے۔ کہانی کے فنی ارتقاء میں منشایاد کی کہانیاں یقینا ایک بڑی چھلانگ ہیں۔ اشفاق احمد حیرت ہے کہ ایک ہی دور میں کوئی افسانہ نگار اس قدر متنوع قسم کی کہانیاں لکھے یا لکھ سکے۔ آئرستانی افسانہ نگار اور ناقد شان او فاؤلین نے ڈی ایچ لارنس کے افسانوں پر بحث کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اچھے افسانہ نگاروں کی ایک پہچان یہ ہے کہ ان کے کوئی سے دو اچھے افسانوں کو آپ ایک دوسرے کے مقابل رکھ کر دیکھیں تو پتا نہیں چلتا کہ ایک ہی لکھنے والے نے ان دونوں کو کیسے لکھ لیا۔ ہمارے دور ے دور میں اس تنقیدی تحیر کا اطلاق منشا یاد سے زیادہ کسی اور افسانہ نگار پر مشکل سے ہوگا مظفر علی سید منشایاد کی کہانیاں پڑھتے ہوئے ، اس کے کہانی کہنے کے انداز کو دیکھ کر مجھے لیونارڈو کے یہ الفاظ سطر سطر پر یاد آتے رہے اور یہی گواہی ہے کہ لفظوں میں چھپے ہوئے احساسات کیسے ایک اندھیرے کو روشن اندھیرا بنا سکتے ہیں اور کیسے ایک روشنی کو کلائی ہوئی روشنی اور یہی سبب ہے کہ ان کہانیوں نے رات پڑے کہانیاں کہنے سننے کی روایت کو اُلٹ کر رکھ دیا ہے یہ کہانیاں طلوع ہوتے سورج کی لالی کے وقت پڑھی جانے والی کہانیاں ہیں۔ امرتا پریتم
Showing 1-9 of 51 item(s)