آزاد ہند فوج: ایک ان کہی داستان یہ ان دنوں کی بات ہے جب پورا ہندوستان غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا۔ ہر طرف سے مایوسی کا عالم تھا، لوگ سوال کرتے تھے: کیا ؟ تھے: کیا کبھی آزادی کا سورج طلوع ہوگا ؟ تب کہیں دور ایک لاکار گونجی سبھاش چندر بوس کی للکار : ” تم مجھے خون دو، میں تمہیں آزادی دوں گا ! یہ آواز سیدھی نوجوانوں کے دل میں اُتری ، اور ایک نئی کہانی نے جنم لیا۔ بوس نے صرف تقریر نہیں کی ، وہ میدان میں اُترے۔ مولوی کا بھیس بدلا ، لمبی داڑھی رکھی اور گونگے بن گئے تا کہ کوئی پہچان نہ سکے۔ پشاور سے افغانستان ، وہاں سے روس اور پھر جرمنی جا پہنچے۔ ہر راستے پر موت کھڑی تھی، مگر بوس کے ارادے فولاد کے تھے ۔ جرمنی میں آزاد ہند مرکز قائم کیا ، پھر جاپان پہنچے اور آزاد ہند فوج کی بنیاد رکھی۔ یہ فوج ان سپاہیوں کی تھی جو کبھی انگریزوں کے لیے لڑتے تھے، اب اپنی سرزمین کے لیے لڑنے کو تیار تھے۔ برما کے جنگلوں میں ان کی وردیاں دھول میں آئیں ، بندوقوں کی نالیں چمکیں ، اور ہر سینے میں صرف ایک نعرہ دھڑکنے لگا : ” چلو دلی !“‘ اُن کا خواب تھا کہ وہ لال قلعے پر ہندستان کی آزادی کا پرچم لہرائیں گے، مگر قسمت نے ساتھ نہ دیا۔ برما کی لڑائیاں سخت تھیں، راشن کم ہتھیار محدود۔ جاپان کی شکست کے بعد یہ خواب بکھر نے لگا۔ جب آزاد ہند فوج کے سپاہی گرفتار ہوئے اور اُن پر غداری کے مقدمے چلے تو ہندوستان جاگ اٹھا۔ لوگ چیخ اٹھے : ” یہ غدار نہیں ، ہمارے ہیرو ہیں ؟ انگریز حکومت دہل گئی۔ فوج ، بحریہ، سب میں بغاوت کی آگ لگ گئی اور آخر کار وہ دن آیا جب انگریز خود اس سرزمین کو چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ یوں آزاد ہند فوج کی یہ کہانی ختم ہو کر بھی زندہ رہی ایک ایسی داستان جو ہر دل میں بغاوت، قربانی اور آزادی کی جوت جلا گئی۔
سبھاش چندر بوس : آہنی عزم کا علمبردار سبھاش چندر بوس ایک ہر دل عزیز اور جری عوامی رہنما تھے۔ وہ دو مرتبہ کانگریس کے صدر منتخب ہوئے۔ گاندھی جی، پنڈت جواہر لال نہرو اور سردار ولبھ بھائی پٹیل اعتدال پسند سیاست کے قائل تھے، جبکہ سبھاش چندر بوس خالص قوم پرست جذبات کے حامل تھے۔ جب کانگریس کے اعتدال پسند رہنما بغاوت کے شعلوں کو دبانے اور قابو میں رکھنے کے منصوبے بنا رہے تھے، سبھاش چندر بوس پوری جرات کے ساتھ جنگ آزادی کا بگل بجا رہے تھے۔ ادھر گاندھی جی امن ، عدم تشدد اور صبر و قناعت کے گیت الاپ رہے تھے، اُدھر سبھاش جی کا یقین تھا کہ اب قربانی کا وقت آگیا ہے، اپنا سب کچھ نچھاور کرو اور غلامی کی زنجیروں کو توڑ ڈالو۔ وہ اپنا سر ہتھیلی پر رکھ کر غیر ملکی حکمرانوں سے آزادی چھینے کے لیے میدان عمل میں اُتر آئے ۔ انہوں نے لاکار کر کہا: آؤ! میں تمہیں آزادی کا راستہ دکھاتا ہوں ۔ میرے پیچھے چلو !“ لیکن جب گاندھی جی نے یہ آواز سنی تو انہیں ہر طرف تشدد کی بو محسوس ہونے لگی۔ انہیں یوں لگا جیسے اُن کے اپنے سانسوں سے بھی تشدد کی صدا آ رہی ہو۔ وہ خوف زدہ ہو گئے ۔ انہیں اپنی تمام عمر کی محنت اور اصولوں کی بنیاد پر قائم عمارت زمیں بوس ہوتی دکھائی دینے لگی۔ وہ متزلزل ہوئے اور اپنی زندگی کی سب سے بڑی سیاسی غلطی کر بیٹھے۔ ہندوستان کی تحریک آزادی کے نازک ترین مرحلے پر انہوں نے نہ صرف قومی قوت کا غلط اندازہ لگایا بلکہ اپنے سیاسی وقار کو بچانے کی کوشش میں برصغیر کے بہترین مفاد کو پس پشت ڈال دیا۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان پیشکش شدت اختیار کر گئی ۔ بکری شیر پر غالب آگئی اور دنیا حیرت زدہ رہ گئی۔ سبھاش چندر بوس اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ برصغیر کی آزادی کے لیے ہندوستان کی سرزمین کو ترک کرنا ناگزیر ہے۔ کئی دنوں کے غور وفکر کے بعد وہ بھیس بدلے کابل کے راستے برلن (جرمنی) پہنچے، اور پھر وہاں سے جاپان کے شہر ٹوکیو روانہ ہو گئے ۔ ٹوکیو سے انہوں نے آزاد ہند فوج کی تشکیل کے لیے سنگا پور کا رخ کیا۔
خواجہ معین الدین کے بارے ایک لمحہ توقف کیے بغیر یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ ڈراما نگار بھی تھے ہدایت کار بھی اداکار بھی۔ انہوں نے ہر شاخ میں اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا اور سب نے ان کی اہلیتوں کا اعتراف کیا۔ خواجہ صاحب کی تھیٹر سے لگن دیکھ کر یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ وہ پاکستان میں بابائ تھیٹر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جب بھی اُردو تھیٹر کی تاریخ لکھی جائے گی ، ان کی کوششوں کا تفصیل کے ساتھ ذکر ہوگا۔ میرزا ادیب خواجہ معین ، مطمئن آبادی، منصفانہ معاشرہ اور مستحکم ملک کے خواہش مند تھے۔ ڈراما مرزا غالب بندر روڈ پر اُن کی اس خواہش کا اظہار ہے۔ بندر روڈ اس ڈراما میں جائے واردات بھی ہے۔ اور صراط مستقیم کا استعارہ بھی۔ خواجہ معین الدین نے پاکستان کی پہلی دہائی کو غور سے دیکھا اور جو صورت حال نظر آئی اُسے مرزا غالب کا نام لے کر صاف صاف بیان کر دیا۔ مرزا غالب کے ڈراما میں وہ کسی جگہ قیام نہیں کرتے اور منظر تیزی سے بدلتا رہتا ہے۔ قبرستان ، عالم بالا، بھارت، پاکستان، عالم خواب مختار مسعود خواجہ معین الدین مکالموں میں طنز بیج سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ لیکن کلانگس پر تاثر پھیل سا جاتا ہے۔ ان کا رشتہ فنی طور پر قدیم ڈرامے کے ساتھ قائم تھا، لیکن انھوں نے موضوعات دور حاضر کے مسائل منتخب کیے، اور ڈرامے سے زندگی کی زہرنا کی کو سامنے لے آئے۔ ڈاکٹر انور سدید خواجہ معین الدین کی زبان بظاہر سادہ اور عام فہم ہے، مگر اس کے پیچھے ایک گہری معنویت، معاشرتی شعور اور فکری بلندی پوشیدہ ہوتی ہے۔ وہ روز مرہ کے لہجے میں بات کرتے ہیں، مگر ان کے مکالمے زندگی کے بڑے سوالات سے ٹکراتے ہیں۔ یہی انداز ہمیں دنیا کے عظیم ڈرامہ نگاروں کی تخلیقات میں بھی نظر آتا ہے، جہاں سادگی کے پردے میں ایک وسیع تر سماجی و انسانی کا ئنات پوشیدہ ہوتی ہے۔ عقیل اختر
جگن ناتھ آزاد کو اردو اور علامہ محمد اقبال سے ایک خاص نسبت حاصل تھی ۔ اسی لیے ہم ان کی زندگی پر نظر ڈالیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان ان کا دوسرا گھر تھا۔ یہاں کی تمام بڑی بڑی ادبی تقریبات میں ان کو اعزاز کے ساتھ مدعو کیا جاتا تھا۔ اقبال کی شاعری اور فلسفہ و فکر کو مغرب میں متعارف کروانے میں انھوں نے اہم کردار ادا کیا۔ زیر نظر سفر نامہ " کولمبس کے دیس میں دراصل امریکہ، کینیڈا اور برطانیہ کے اُس سفر کی روداد ہے جو سفر انھوں نے اقبال اور اُردو کے حوالے سے منعقدہ مختلف تقاریب میں شرکت کے لیے کیا۔ یہ سفرنامہ ستر کی دہائی کے آخری برس سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے سے بھی پہلے ان ممالک میں ایسی بستیاں موجود تھیں جہاں ہندوستانی اور پاکستانی کلچر کے اہم نشانات کو محفوظ کر دیا گیا تھا لیکن اس کے باوجود نئی نسل کے اپنے کلچر سے کٹ جانے کا خدشہ بہر حال موجود تھا۔ اس سفرنامہ کے مطالعہ سے یہ جان کر حیرت اور خوشی کے ملے جلے جذبات پیدا ہوتے ہیں کہ نصف صدی قبل بھی امریکی یونیورسٹیوں میں اُردو، ہندی، پنجابی، پالی، بنگالی، سندھی، آسامی، بلوچی، گجراتی اور تلیگو جیسی زبانیں پڑھائی جاتی تھیں۔ ڈاکٹر محمد وصی اللہ خاں جیسے بہت سے ماہرین تعلیم امریکہ میں اہم خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ اُس وقت کے امریکہ کا سب سے بڑا سیرز ٹاور پاکستان نژاد انجینئر فضل الرحمان کی تخلیقی امریکہ کی ترقی میں اس کے تعلیمی نظام اور فعال کتب خانوں کے ساتھ ساتھ باصلاحیت تارکین وطن کا بھی اہم کردار ہے۔ وہاں کی ایک اہم درسگاہ ایسٹ ویسٹ یونیورسٹی کے چانسلر صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ سفر نامہ نگار واقعہ معراج کے تناظر میں شائع ہونے والی ایک کتاب کا ذکر کرتے ہوئے اس امر پر تاسف کا اظہار کرتے ہیں کہ مغرب میں مسلمانوں کی دلآزاری کا جو سلسلہ صدیوں پہلے شروع ہوا تھا وہ اب بھی اسی طرح جاری ہے اور اب ہم دیکھتے ہیں کہ اس میں مزید شدت آگئی ہے۔ سفرنامہ کے مطالعہ سے ہمیں سمندر پار بسنے والے شاعروں اور ادیبوں کی اُردو ادب کے لیے بیش قدر خدمات کے بارے میں بھی آگاہی حاصل ہوتی ہے۔ سفرنامہ نگار نے نصف صدی قبل کے امریکہ میں لائبریریوں میں جن سہولیات کی موجودگی کا ذکر کیا ہے ہم نصف صدی بعد بھی ان سے محروم ہیں یہ سفر نامہ دلکش اور رواں دواں نثر کا نمونہ ہے اور اُردو قارئین کے لیے لیے ایک تحفہ سے کم نہیں۔ ارشد نعیم مدیر سه ماهی صحیفہ لاہور
مطائبات - اُردو مزاح کا دور جدید فکاہیہ کالم نگاری کی جو روایت اودھ پنچ کے صفحات پر منشی سجاد حسین سے شروع ہو کر رتن ناتھ سرشار ، تر بھون ناتھ ہجر ، جوالا پرشاد برق، مرزا مچھو بیگ ستم ظریف ، نواب سید محمد آزاد او راکبرالہ آبادی جیسے اعلیٰ مزاح نگاروں تک وسعت اختیار کرتی ہے۔ اس روایت نے ادب اور صحافت کے مابین ایک ایسا رشتہ استوار کیا جو وقت کے ساتھ مضبوط تر ہوتا چلا گیا۔ جب یہ روایت سفر کرتے کرتے جدید اردو صحافت کے عہد میں داخل ہوئی تو یہاں اسے ثروت مند کرنے والوں میں ہمیں عبد المجید سالک، چراغ حسن حسرت ، خواجہ حسن نظامی، شوکت تھانوی اور قاضی عبدالغفار جیسے صاحب اسلوب نثر نگار جلوہ آرا نظر آتے ہیں۔ ان صاحبان قلم نے ایک دن کی زندگی کی حامل تحریروں کو مستقل ادبی فن پارہ بنانے کا سلیقہ وضع کیا۔ چراغ حسن حسرت کی تخلیقی شخصیت اس کارواں میں اپنی الگ شناخت اور اسلوب کے ساتھ ممتاز نظر آتی ہے ۔ انھوں نے طنز کو آرٹ کا درجہ دیا اور اخباری کالم بھی ایک مستقل ادبی صنف کے طور پر شناخت قائم کرنے لگا۔ اسی بنا پر انھیں بجا طور پر فکاہیہ کالم نگاری کا امام کہا جاتا ہے۔ مطالبات چراغ حسن حسرت ( سند باد جہازی ) کے ان کالموں کا مجموعہ ہے۔ جو انھوں نے اپنے جاری کردہ ہفت روزہ ” شیرازہ میں تحریر کیے۔ یہ ہفت روزہ ابن اسماعیل کے نزدیک اُردو مزاحیہ ادب کے جدید دور کا آغاز ہے ان کالموں میں آپ ایک ایسے مزاح نگار سے متعارف ہوتے ہیں جو مغربی طنز و مزاحکے حربوں اور آرٹ کو ایک مشرقی ادیب کی آنکھ سے دیکھتا ہے اور ان کے جملہ محاسن کو اپنے اسلوب کا حصہ بناتا ہے۔ انھوں نے ہماری سیاسی ، سماجی اور معاشی زندگی پر ایک بالغ نظر طناز کی نگاہ ڈالی ہے، ان کے طنز میں دلیل اور منطق کا حسن ہے۔ پھکڑ پن کے ذریعے کسی کی بھی نہیں اڑائی گئی ، یہ کالم ایک خاص عہد کی سماجی زندگی سے متعلق ہونے کے باوجود کامیابی سے اگلے زمانوں تک سفر کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ارشد نعیم مدیر سہ ماہی صحیفہ لاہور
Kile Ka Chhalka Or Dosare Mazamin - کیلے کا چھلکا اور دوسرے مضامین
Agar Main Sher Na Khata - اگر میں شعر نہ کہتا
Kuliyat Safdar Saleem Siyal - صفدر سلیم سیال
Showing 1-9 of 564 item(s)