خواجہ معین الدین کے بارے ایک لمحہ توقف کیے بغیر یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ ڈراما نگار بھی تھے ہدایت کار بھی اداکار بھی۔ انہوں نے ہر شاخ میں اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا اور سب نے ان کی اہلیتوں کا اعتراف کیا۔ خواجہ صاحب کی تھیٹر سے لگن دیکھ کر یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ وہ پاکستان میں بابائ تھیٹر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جب بھی اُردو تھیٹر کی تاریخ لکھی جائے گی ، ان کی کوششوں کا تفصیل کے ساتھ ذکر ہوگا۔ میرزا ادیب خواجہ معین ، مطمئن آبادی، منصفانہ معاشرہ اور مستحکم ملک کے خواہش مند تھے۔ ڈراما مرزا غالب بندر روڈ پر اُن کی اس خواہش کا اظہار ہے۔ بندر روڈ اس ڈراما میں جائے واردات بھی ہے۔ اور صراط مستقیم کا استعارہ بھی۔ خواجہ معین الدین نے پاکستان کی پہلی دہائی کو غور سے دیکھا اور جو صورت حال نظر آئی اُسے مرزا غالب کا نام لے کر صاف صاف بیان کر دیا۔ مرزا غالب کے ڈراما میں وہ کسی جگہ قیام نہیں کرتے اور منظر تیزی سے بدلتا رہتا ہے۔ قبرستان ، عالم بالا، بھارت، پاکستان، عالم خواب مختار مسعود خواجہ معین الدین مکالموں میں طنز بیج سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ لیکن کلانگس پر تاثر پھیل سا جاتا ہے۔ ان کا رشتہ فنی طور پر قدیم ڈرامے کے ساتھ قائم تھا، لیکن انھوں نے موضوعات دور حاضر کے مسائل منتخب کیے، اور ڈرامے سے زندگی کی زہرنا کی کو سامنے لے آئے۔ ڈاکٹر انور سدید خواجہ معین الدین کی زبان بظاہر سادہ اور عام فہم ہے، مگر اس کے پیچھے ایک گہری معنویت، معاشرتی شعور اور فکری بلندی پوشیدہ ہوتی ہے۔ وہ روز مرہ کے لہجے میں بات کرتے ہیں، مگر ان کے مکالمے زندگی کے بڑے سوالات سے ٹکراتے ہیں۔ یہی انداز ہمیں دنیا کے عظیم ڈرامہ نگاروں کی تخلیقات میں بھی نظر آتا ہے، جہاں سادگی کے پردے میں ایک وسیع تر سماجی و انسانی کا ئنات پوشیدہ ہوتی ہے۔ عقیل اختر
* Rustam and Sohrab || رستم و سہراب ( ڈراما ) * Agha Hasher Kashmiri || آغا حشر کاشمیری * Paperback Dimensions: 5.5 x 8.25 * Cover Type: Hard * Premium quality books * Best selling urdu book * Good Printing * Good Paper * Original Book * Reasonable Price * Famous Books
Akhari Show (Drama) Merza Athar Biag
Showing 1-4 of 4 item(s)